مرکزی صفحہ
سوانح حیات
خبریں
مرجع دینی سے مربوط خبریں
دفتر کی خبریں
نمائندگان کی خبریں
ہدایات و رہنمائی
سوالات و جوابات
دروس
فقہ کے دروس
اصول کے دروس
تفسیر کے دروس
اخلاق کے دروس
تالیفات
بیانات
سوال: آپ کے مطابق الکحل نجس العین ہے، ایک سوال یہ ہے کہ اس کی تیاری کیسے ہوتی ہے اور یہ نجس کیوں ہے؟ جبکہ سیستانی صاحب نے اس کو پاک قرار دیا ہے ۔ مشکل یہ ہے کہ کافی تعداد میں چیزوں میں الکحل استعمال ہو رہا ہے ۔ جیسے کہ دوائیاں اور پرفیوم میں ۔ کیا ان حالات میں دوائیاں اور پرفیوم کو استعمال کرنا صحیح ہے جبکہ آپ کو معلوم ہوگا کہ دوائیوں کا کوئی اور نعم البدل نہیں ہے ۔ کیا پرفیوم کو بھی استعمال کرنے کی اجازت ہو گی؟ آج کل مشروبات بھی ایسے آرہے ہیں کہ جن پر لکھا ہوتا ہے کہ یہ الکحل سے پاک ہے لیکن اس کے اجزاء پڑھنے پر پتہ چلتا ہے کہ 0.05% یا زیادہ الکحل ہے ۔ کیا ان کو استعمال کیا جا سکتا ہے؟ اس کے علاوہ میں نے ایک میل میں آپ سے پوچھا تھا کہ جسم پر بیل بوٹے، پھول یا انسانی اور جانور کی تصویر بنوانا جائز ہے ۔ اور اگر نہیں تو بنوا لی ہوں تو کیا حکم ہے اور اگر کسی ایسے آدمی کو غسل دینا پڑے تو کیا حکم ہے؟
جواب:بسمہ سبحانہ دو مراجع کے درمیان فتاویٰ میں اختلاف کی حیثیت دو ڈاکٹروں کے مابین بیماری کی تشخیص اور بیمار کے لئے صحیح دوا کے تعین میں اختلاف کی ہے۔ میرے محترم الکحل کے نجس ہونے کا میرا فتویٰ ہی نہیں ہے بلکہ ہمارے بہت سے مراجع کا فتویٰ ہے اور تھا جیسے آیت اللہ محسن الحکیم رحمۃاللہ ۔ اور یہ بھی واضح رہے کہ دوا میں الکحل یا اور نجس اور حرام چیز ہو اور اس دوا کے علاوہ کوئی پاک دوا نہ ہو تو شرعاً اس دوا کا استعمال جائز ہے ۔ اور الکحل کا بہت سی چیزوں میں استعمال ہونے سے اس کے پاک ہونے کی دلیل نہیں دنیا میں بہت سے ایسے حرام فعل ہیں کہ جو عام ہو چکے ہیں ۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم اسلام کو چھوڑ کر دنیا کے پیچھے لگ جائیں ۔ اور جسم پر اگر ذی روح کی تصویریں بن چکی ہوں تو ان کو اس طرح خراب کرنا کہ حیوان کی شکل باقی نہ رہے ضروری ہے اور یا پھر اس کو ممکن ہو تو مٹا دیا جائے۔ واللہ العالم
پچھلا صفحہ
1
اگلا صفحہ