مرجع مسلمین و شیعیان جہاں فقیہ اہل بیت ؑ عصمت و طہارت حضرت آیۃ اللہ العظمیٰ الحاج الشیخ حافظ بشیر حسین النجفی (دام ظلہ الوارف)
4/1/2016
الحمد للہ رب العالمین و الصلاة والسلام علی خیر خلقہ خاتم الانبیاء و المرسلین ابی القاسم محمد و آلہ الطاہرین المظلومین و اللعنة الدائمة علی اعدائھم وظالمیھم الی یوم الدین.
کے جد امجد ایک معروف علمی اور سماجی شخصیت تھے کہ جن کا مہمان سرا ہر عالی و دانی کی آماجگاہ اور ہر مکتب ِفکر سے تعلق رکھنے والے کے لئے انتہاءِ طریق اور ہر حق کے متلاشی کے لئے منزل مقصود تھا ۔
........ کے دادا مرحوم کا دیوان خانہ ہر وقت لوگوں سے بھرا رہتا تھا اور وہاں مختلف نظریات اور مختلف مکاتبِ فکر کے بارے میں بحث و مباحثہ اور مناظرات جاری رہتے تھے ۔ اور ان کی وفات کے بعد آیت اللہ العظمیٰ ........ کے والد مرحوم نے اپنے والد کی سیرت کو اختیار کیا اور ساری زندگی انسانیت اور سماج کی خدمت کے لئے وقف کر دی ۔
........ نے محبت اہلبیت سے سیراب اور بہار ِایمان کے عروج کے صدقے سر سبزو شاداب درختوں کے سائے میں اپنی زندگی کے سفر کا آغاز کیا اور ایسی ہوا میں نشوونما پائی کہ جس کا ہر جزء دین ،مذہب اور انسانیت کی خدمت کے پاکیزہ جذبوں سے معطر تھا ۔
........ کے والد اور والدہ دونوں ہی اپنے بیٹے کو صحیح اسلامی تربیت کے ساتھ آراستہ و پیراستہ کرنے ،اسلامی تمدن سے مزین کرنے اور اس کی عقل کی زرخیزکھیتی میں معارف الٰہی اور علوم ِ دین کی کاشت میں ہمہ وقت کوشاں رہتے ۔
........ نے رزق ِ علم کے حصول کی ابتداء اپنے گھر سے ہی کی اور اپنے دادا جناب محمد ابراہیم مرحوم اور اپنے چچاجناب خادم حسین جعفری کے پاس عربی گرائمر ،صرف ،نحو اور فقہ وغیرہ کی ابتدائی تعلیم حاصل کی اور پھر لاہور میں آیت اللہ اختر عباس قدس سرہ کے پاس زانوئے تلمذ تہہ کیا اور ان کے علمی فیض سے کافی عرصہ تک استفادہ کرتے رہے لیکن اس پورے عرصہ میں ہمیشہ علمی تشنگی ایک لاعلاج مرض کی طرح دامن گیر رہی ،علمی رفعتوں کو چھونے کی تمنا میں فکر ہمیشہ کسی براق کی تلاش میں گھومتی پھری اوربحر ِ علم میں موجود جزیروں کی جستجو روح و جسم پہ حاوی رہی۔
کے مقدس و مبارک جوار کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اختیار کرنے کا فیصلہ کیا اور زندگی کو اہل بیت کے بحرِعلم کی گہرائیوں سے لعل و جواہر چننے اور شیعیانِ علی میں بانٹنے کے لئے وقف کر دیا ۔
کے اُس جوار کو اپنا مسکن قرار دیا کہ جہاں علمی رفعتیں سر بخم نظر آتی ہیں جہاں چلنے والی ہوا امیر المومنین کی ضریح کے چرنوں کو چومتی اور اس کے سنہرے گنبد کو سلامی دیتی ہوئی اپنے دامن میں انمول موتی سموئے سانسوں سے اس طرح گزرتی ہے کہ جیسے عطر و خوشبو اور پھولوں کی مہک سے بھرے چمن سے گزر کر کوئی ہوا ہمارے سانسوں سے ٹکرا جائے ۔
سے مزید مزین کرنے اور ان پر علمی ارتقائی نقش و نگار اور پھول بوٹوں کو کندا کرنے کے لئے نجف اشرف میں آتے ہی آپ نے اُس وقت کے معروف اور قابل ترین اساتذہ کے پاس زانوئے ادب تہہ کیا اور ان سے بہت سے علوم میں کسبِ فیض کیا ۔ آپ کے اساتذہ میں سے قابلِ ذکر شخصیات میں حضرت آیت اللہ الشیخ محمد کاظم تبریزی بھی شامل ہیں کہ جن کے پاس آپ نے کفایہ اور بحث خارج کا کچھ حصہ پڑھا ۔آیت اللہ العظمیٰ الشیخ محمد حسین اصفہانی کے لائق ترین شاگرد اور حوزہ کے قابل ترین استاد آیت اللہ العظمیٰ سید محمد روحانی کے اصول وفقہ کے درسِ خارج میں مسلسل سات سال سے زیادہ شرکت کی۔ اور استاد المراجع آیت اللہ العظمیٰ سید ابو القاسم خوئیؒ کے پاس اصول اور فقہ کے درسِ خارج میں تقریباً اٹھارہ سال سے بھی زیادہ عرصہ حاضر ہوتے رہے ۔اور اس کے ساتھ ساتھ خود بھی درس خارج اور مختلف علوم سے طلاب کو زیور علم سے آراستہ کرتے رہے۔
کےالہام
........ کافی عرصہ تک جامعة المنتظر(لاہور) میں تدریسی خدمات سر انجام دیتے رہے اور پھر نجف اشرف میں آنے کے بعداپنی قابلیت اور علومِ اہل بیت کو پھیلانے کے پاکیزہ جذبے کے تحت سن 1966ء میں تدریس کا باقاعدہ آغاز کیا اور مختلف ادبی منطقی، فلسفی ، اصولی اور فقہی علوم کے ذریعے طلاب کے شعورو عقل کو منور کرنے کی سعادت حاصل کرنے لگے ۔
........ نے فقہ اور اصول کا درسِ خارج پڑھانے کی ابتداء سن 1974ء میں کی اور آج تک بغیر کسی وقفہ کے درسِ خارج پڑھانے میں مشغول ہیں۔نجف اشرف میں موجود علماء ،فضلاء اور آیت اللہ العظمیٰ کے شاگردوں سے مسلسل میں نے یہ بات سنی اور اور اپنی بے بضاعت علمی عقل و فکر سے دیکھی ہے کہ درسِ خارج اور دوسرے علوم کی تدریس و ترویج کے حوالے سے آیت اللہ العظمیٰ حافظ بشیر حسین نجفی جیسی بلند پایہ شخصیت پوری دنیا میں بے مثل و بے مثال اور ناپیدہے۔ آپ تمام علمی مطالب ،علمی اعتراضات و مشکلات کے حل ،قرآنی الفاظ کی تشریح آیات کی لفظی توضیح، روایات میں تعادل و ترجیح اور ہر طرح کی اعتقادی ترشیح کو اپنے گلدانِ فکر میں ہر وقت یوں سجائے رہتے ہیں کہ گویا ابھی ابھی گلستانِ علم سے تر و تازہ چن کر لائے ہوں ۔ تدریس میں ایسے متوازی اور معیاری طریقہ کو اختیار کرتے ہیں کہ نہایت عمیق مباحث اور علمی مطالب کو بھی تفہیم کے سادہ ترین سانچے میں ڈھال دیتے ہیں اور سامعین کو کرنوں کے سہارے آفتابِ علم تک پہنچنا سکھا دیتے ہیں ۔پوری دنیا اور خاص طور پر نجف اشرف میں ہزاروں علماء و فضلاء بالواسطہ یا بلا واسطہ آپ سے کسبِ فیض کرنے کے بعدتشنگانِ علم کو سیراب کر رہے ہیں آپ کے شاگردوں میں ایسے افراد بھی ہیں کہ جو درسِ خارج پڑھانے کی سعادت حاصل کررہے ہیں ۔
(رسالہ عملیہ کہ جو ٣ جلدوں پر مشتمل ہے)
٭:رسالة فی قاعدة ما یضمن بصحیح
(قسم المنطق )
٭:مومنین کے گھروں تک بجلی کی مفت فراہمی کے لئے متعدد بڑے جرنیڑوں کی تنصیب کہ جن سے ہزاروں مومنین استفادہ کر رہے ہیں ۔
کو آگے بڑھانے میں ان کی مدد کرتے ہیں ۔
........ کی خواہش ہے کہ نجف اشرف اور دوسرے ممالک خاص طور پر پاک وہندمیں مومنین کے لئے دینی اور جدیددنیاوی تعلیم کے لئے اعلیٰ اداروں کو قائم کریں تاکہ مومنین ان اداروں میں مفت اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے قوم وملت سے جہالت اور غربت کی لعنت کو ختم کر سکیں۔
نجف اشرف میں حوزہ کے طلاب کے لئے ہزاروں گھروں پر مشتمل ایک کالونی اور جدید ترین ہسپتال کے قیام کا ارادہ بھی رکھتے ہیں۔ خدا آیت اللہ العظمٰی...... کی زندگی دراز کرے اور ان کی تمام خواہشات کو پورا کرے اورہمیں ان سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کرنے کی توفیق عطا فرمایا ۔ (آمین)