مرکزی صفحہ
سوانح حیات
خبریں
مرجع دینی سے مربوط خبریں
دفتر کی خبریں
نمائندگان کی خبریں
ہدایات و رہنمائی
سوالات و جوابات
دروس
فقہ کے دروس
اصول کے دروس
تفسیر کے دروس
اخلاق کے دروس
تالیفات
بیانات
سوال:ایام عزاء میں کالے کپڑے پہن کر نماز ادا کر سکتے ہیں یا نہیں؟
جواب:بسمہ سبحانہ ایام عزاء میں کالے کپڑے پہن کر نماز ادا کر سکتے ہیں۔ واللہ العالم
سوال:حضرت آیت اللہ العظمی بشیر حسین نجفی صاحب کی ویڈیو میں کہنا ہے کہ خوب زنجیر زنی کرو اور ہاتھ سے لکھے ہوئے فتوی میں وہ زنجیر زنی سے منع کرتے ہیں، کہتے ہیں کہ اگر لوگ اسلام سے متنفر ہوں تو اس کو کرنے کی اجازت نہیں. ..مجھے بتائیں غیر مسلم اور غیر شیعہ کو تو چھوڑیں خود شیعہ بھی اس کو دیکھ کر متنفر ہونگے خصوصا بچے، عورتیں اور مغرب میں پیدا ہونے والی نسلیں.
جواب:بسمہ سبحانہ ویڈیو میں جو ذکر کیا گیا ہے کہ زنجیر زنی، قمہ زنی کرو تو شریعت کی طرف سے اس کی اجازت ہے اور اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ زنجیر زنی اور قمہ زنی کرنا شریعت میں واجب ہو گیا ہے اور ان شرائط پر جائز ہے کہ جن کو ہم نے اپنے زنجیر زنی والے فتوی میں لکھا ہے اور واضح رہے کہ دنیا میں کوئی جگہ ایسی نہیں ہے کہ جہاں ماتم و زنجیر زنی اور دیگر شعائر حسینی کے سبب امام حسینؑ سے کوئی بھی متنفر ہو ا ہو اور جو یہ دعوی کرتا ہے وہ بغیر دلیل کے کرتا ہے خدا ایسوں کو ہدایت دے۔ اور مؤمنین پر واضح ہے کہ ہم نے فتوی میں جو متنفر ہونے کا ذکر کیا ہے وہ غیر مسلم کا امام حسینؑ سے متنفر ہونے کا کیا ہے اور جن لوگوں کی نفرت کا آپ نے ذکر کیا ہے تو آیا اگر وہ امام حسینؑ سے متنفر ہوئے ہیں تو( العیاذ باللہ) وہ کافر ہو گئے ہیں اور اگر ہمارے نیک اعمال کے سبب اگر کوئی ہم سے متنفر ہوتا ہے تو ہوتا رہے۔ اگر آپ داڑھی رکھیں گے اور آپ سے کوئی متنفر ہوتا ہے یا آپ کی بیوی، بہن اور بیٹی نقاب پہنتی ہیں اور شرعی پردہ کرتی ہے تو اس سے کوئی متنفر ہوتا ہے تو اسے متنفر ہونے دیں اور اسی طرح دنیا کے تمام وہابی ہمارے زیارت امام حسینؑ کرنے سے بھی متنفر ہوتے ہیں اور ہمیں مشرک کہتے ہیں اور اذان میں علی ولی اللہ کہنے سے بھی ہمیں مشرک کہتے ہیں اور معصومینؑ کی ضریحوں کو چومنے سے بھی ہمیں کافر اور مشرک کہتے ہیں ضریح کے پاس کعبہ کی طرف رخ (منہ) کر کے نماز پڑھنے سے بھی ہمیں وہ کافر و مشرک کہتے ہیں اگر زنجیر زنی یا قمہ زنی کسی کے ہم سے متنفر ہونے کا باعث بنے تو (العیاذ باللہ) وہ امام سجادؑ سے بھی متنفر ہوں گے کیونکہ انہوں نے اپنا چہرہ دیوار پر مار کر زخمی کیا تھا۔ اور اسی طرح جناب زینبؑ سے بھی (العیاذ باللہ) متنفر ہونگے کیونکہ انہوں نے محمل پر اپنا سر مار کر پیشانی کو زخمی کیا تھا۔ مجھے ڈر ہے کہ ہم سے متنفر ہونے والے ایک دن امام حسینؑ کی شہادت کے دنوں میں بنو امیہ کی طرح کہیں خوشیاں اور عیدیں منانا نہ شروع کر دیں تا کہ ہم رونے، پیٹنے اور ماتم وغیرہ سے دور ہو جائیں۔ اور آئمہؑ نے ہمیں ان کے غموں کے ایام میں غم اور ان کی خوشیوں کے ایام میں خوشیاں منانے کا حکم دیا ہے اور ہم ہر مباح طریقے سے ان کے غم اور خوشیاں منائیں گے، شاید آپ کو معلوم نہ ہو کہ جتنی شیعت کی تبلیغ شعائر حسینی سے ہوئی ہے کسی بھی اور چیز سے نہیں ہوئی، خدا ہم سب کو ہدایت دے۔ والسلام
سوال:زنجیر مارنے کے بعد آپ کے کپڑوں کو خون لگا ہوتا ہے اس حالت میں دوران جلوس نماز پڑھی جا سکتی ہے؟
جواب:بسمہ سبحانہ کسی اور وجہ سے آپ کے جسم سے خون نکلے تو جو اس کا حکم ہے وہی زنجیر زنی سے نکلنے والے خون کے بعد کا حکم ہے۔ واللہ العالم
سوال:ہم اپنی مجلس میں قمیض اتار کر ماتم کرتے ہیں کہتے ہیں بی بی زہراء سلام اللہ علیھا ہماری مجلس میں آتی ہیں تو کیا ہمیں قمیض اتار کر ماتم کرنا چاہیے یا کہ نہیں؟
جواب:بسمہ سبحانہ اگر آپ قمیض نہ بھی اتاریں گے تو تب بھی جناب زہراءؑ مجالس میں آئیں گی اور جناب زہراءؑ کسی بھی نامحرم کی نہ ہی گردن اور نہ ہی اس کا چہرہ دیکھتی تھیں۔ اور وہ اپنے وظیفہ شرعی کو سب سے بہتر جانتی ہیں اور ہم انؑ کے وظیفہ شرعی کو مقرر نہیں کر سکتے ۔اور اسی طرح عورتوں کی مجالس میں بھی معصومینؑ کی روحیں آتی ہیں تو کیا اس کا مطلب ہے کہ تمام خواتین نقاب پہن کر مجالس میں شرکت کریں؟ اور آواز بھی نہ نکالیں؟ کیونکہ نامحرم کو آواز سنانا جائز نہیں ہے اور اسی طرح مردوں کے لیے عورتوں کو بغیر ضرورت کے اپنی آواز سنانا بھی جائز نہیں ہے تو پھر مجالس کا انعقاد کیسے کیا جائے گا؟ اور اس کا جواب وہی ہے جو پہلے ذکر کر چکے ہیں کہ معصومینؑ اپنا وظیفہ شرعی جانتے ہیں۔ واللہ العالم
سوال:مجھے علامہ ضمیر اختر کی ویڈیو کے بارے میں جاننا تھا کہ انہوں نے ایک ویڈیو میں کہا ہے کہ ذوالجناح کی ٹاپوں کو سجدہ کرنا جائز ہے اگر سجدہ تعظیم ہو اور پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ نہیں بلکہ ذوالجناح ذوالجناح ہونا چاہیے تھا؟آیت اللہ بشیر نجفی کیا کہتے ہیں اس بارے میں مہربانی جواب دیں ؟
جواب:بسمہ سبحانہ ہمارے آئمہؑ کی روایات اور قرآن کی آیات سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ خدا کے علاوہ کسی کوبھی سجدہ کرنا جائز نہیں ہے۔ واللہ العالم
سوال:قبلہ صاحب، میری شادی اسی سال دسمبر میں ہو رہی ہے اور جو تاریخیں مقرر ہوئی ہیں وہ ایام عزاء کے ختم ہونے یعنی کہ 8ربیع الاول کے 10 سے 12 دن کے بعد آتی ھیں, میرا سوال یہ ھے کہ کیا محرم, صفر یا باقی ایام عزاء میں شادی کی شاپنگ کی جا سکتی ھے اس میں کوئی حرج تو نہیں کیونکہ بعد میں جو دن ھوں گے وہ شاپنگ کے لیئے بھت کم دن ھوں گےبراۓ مہربانی رہنمائی فرما دیں؟.
جواب:بسمہ سبحانہ شاپنگ کرنا جائز ہے۔ واللہ العالم
سوال:کیا ان ایام عزاء میں میں اپنی شادی کی تیاری کے سلسلہ میں اپنے چہرے کو تھوڑا بہتر یا رنگ صاف کرنے کے لئے کوئی کریم وغیرہ لگا سکتا ھوں جس سے رنگ صاف یا گورا ھو جاۓ اس میں شرعی طور پر کوئی ممانعت تو نہیں. براۓ مہربانی رہنمائی فرما دیں؟.
جواب:بسمہ سبحانہ کریم وغیرہ کے لگانے میں کوئی ممانعت نہیں ہے۔ واللہ العالم
سوال:عرض یہ ہے قبلہ کہ رسومات کے حوالے سے آغا صاحب کا فتوی کیا ہے مثلا حضرت قاسم علیہ السلام کی مہندی کی رسم ہے اور اس کے بعد سہرے وغیرہ اور جو رسومات ہمارے سندھ میں پائی جاتی ہیں اکثر مقامات پر آغا صاحب کا اس حوالے سے فتوی کیا ہے اگر آپ ڈیٹیل میں بھیج دیں تو نوازش ہو گی آپ کی جتنا جلدی ہو سکے؟۔
جواب:بسمہ سبحانہ جناب قاسمؑ کا نوحہ پڑھنا حرام نہیں ہے لیکن کسی بھی معتبر کتاب سے جناب قاسمؑ کی شادی کربلا میں ثابت نہیں ہے اور کوئی آدمی کیا شادی کی فکر کرتا ہے کہ جب اس کے خاندان کے لاشے اٹھ رہے ہوں۔ ہمارے مؤمنین پر واضح رہے کہ واقعہ کربلا کے تفصیلی حالات (یعنی کتنے شہید ہوئے کون کون شہید ہوا کیسے شہید ہو، کس کی عمر کتنی تھی، کون پہلے اور کون بعد میں شہید ہوا اور ہر شہادت کے خاص اور تفصیلی حالات) کے بارے میں روایات بہت مختلف اور متضاد پائی جاتیں ہیں اور کچھ روایتیں شیعہ راویوں سے ہیں اور بہت ساری روایات دشمنوں کے واسطے سے نقل ہوئی ہیں۔ لہٰذا ہم ان واقعات کی تفاصیل یقین کے ساتھ بیان نہیں کر سکتے۔ اور ہم یقین کے ساتھ صرف اتنا کہہ سکتے ہیں کہ امام حسین علیہ السلام اپنے بعض عزیزوں اور مستورات کے ساتھ مدینہ سے مکہ گئے اور اس کے بعد عراق آئے اور کربلا میں اپنی اولاد، رشتہ داروں، مدد گاروں اور بہت سے عزیزوں کے ہمراہ شہید ہو گئے اور امام حسینؑ کے بقیہ خاندان کو قید کر کے کوفہ و شام میں پہنچایا گیا۔ اور ان میں سے جو بچے اور مستورات زندہ بچے وہ مدینہ میں پہنچ گئے اور ان کے اس سفر کے بارے میں بھی جو روایات ملتی ہیں ان میں بھی بہت تضاد پایا جاتا ہے اور صحیح تفصیل صرف اور صرف آئمہؑ کے پاس تھیں یا امام زمانہ (عج) کے پاس ہیں۔ اور معصومینؑ کو ظالموں کے ظلم کے سبب فرصت نہیں تھی کہ واقع کربلا کی تفصیلات سے مؤمنین کو آگاہ کریں۔ اور اگر خدا چاہے گا تو قیامت کے دن ان تمام واقعات کا انکشاف کرے گا۔ لہٰذا مؤمنین کا فریضہ ہے کہ کسی بھی خبر کو جب تک کہ اس کے جھوٹ ہونے کا یقین نہ ہواور اس میں اہلبیتؑ کی رتی بھر بھی اہانت نہ ہو تو اس کو جھوٹا نہ سمجھا جائے اگرچہ وہ دوسری روایتوں کے مخالف ہی کیوں نہ ہو۔ واللہ العالم ۔ الا لعنۃ اللہ علی القوم الظالمین۔۔
سوال:ہمارے علاقے کے ایک جوان نے آپ کے فرمان کے مطابق قمہ زنی کی دوران قمہ زنی خون کے زیادہ اخراج سے دنیا سے چل بسے سوال یہ ہے کہ اسے شہید قرار دیا جاسکتا ہے یا نہیں اور ایسی صورت میں اسے کفن پہنایا جائے یا اس کے اسی خون الودہ کپڑوں میں دفن کرے امید ہے آپ ضرور جواب سے نوازینگے تاکہ آئندہ مشکلات پیش نہ ہوں؟
جواب:بسمہ سبحانہ خداوندعالم اس کو شہید کا درجہ عطا کرے گا اور وہ شہید کہ جس کو کفن نہیں دیا جاتا وہ صرف وہ شہید ہے کہ جو دشمنانِ اسلام کے ساتھ میدان جنگ میں جاں بحق ہو جائے۔ اس لئے امام حسینؑ کے علاوہ جو بھی معصوم شہید ہوئے تھے ان کا غسل و کفن ہوا تھا۔ واللہ العالم
سوال:كربلا كے كتنے شهيد ہیں اور ان كو كب دفن كيا گیا اور جو شهداء عليهم السلام كے سر تهے وه كتنے عرصےکے بعد شهداء كے ساتھ دفن كيے گئے مولا آپ كو لمبى عمر اور صحت و عافيت عطا كرے اور آپ كا سایہ تا ظهورِ امام عليہ السلام هم پر قائم ركهے بجاه محمد و آله عليهم السلام انشاء الله
جواب:بسمہ سبحانہ ہمارے مؤمنین پر واضح رہے کہ واقعہ کربلا کے تفصیلی حالات (یعنی کتنے شہید ہوئے کون کون شہید ہوا کیسے شہید ہوا، کس کی عمر کتنی تھی، کون پہلے اور کون بعد میں شہید ہوا اور ہر شہادت کے خاص اور تفصیلی حالات) کے بارے میں روایات بہت مختلف اور متضاد پائی جاتیں ہیں اور کچھ روایتیں شیعہ راویوں سے ہیں اور بہت ساری روایات دشمنوں کے واسطے سے نقل ہوئی ہیں۔ لہٰذا ہم ان واقعات کی تفاصیل یقین کے ساتھ بیان نہیں کر سکتے۔ اور ہم یقین کے ساتھ صرف اتنا کہہ سکتے ہیں کہ امام حسین علیہ السلام اپنے بعض عزیزوں اور مستورات کے ساتھ مدینہ سے مکہ گئے اور اس کے بعد عراق آئے اور کربلا میں اپنی اولاد، رشتہ داروں، مدد گاروں اور بہت سے عزیزوں کے ہمراہ شہید ہو گئے اور امام حسینؑ کے بقیہ خاندان کو قید کر کے کوفہ و شام میں پہنچایا گیا۔ اور ان میں سے جو بچے اور مستورات زندہ بچے وہ مدینہ میں پہنچ گئے اور ان کے اس سفر کے بارے میں بھی جو روایات ملتی ہیں ان میں بھی بہت تضاد پایا جاتا ہے اور صحیح تفصیل صرف اور صرف آئمہؑ کے پاس تھیں یا امام زمانہ (عج) کے پاس ہیں۔ اور معصومینؑ کو ظالموں کے ظلم کے سبب فرصت نہیں تھی کہ واقع کربلا کی تفصیلات سے مؤمنین کو آگاہ کریں۔ اور اگر خدا چاہے گا تو قیامت کے دن ان تمام واقعات کا انکشاف کرے گا۔ لہٰذا مؤمنین کا فریضہ ہے کہ کسی بھی خبر کو جب تک کہ اس کے جھوٹ ہونے کا یقین نہ ہواور اس میں اہلبیتؑ کی رتی بھر بھی اہانت نہ ہو تو اس کو جھوٹا نہ سمجھا جائے اگرچہ وہ دوسری روایتوں کے مخالف ہی کیوں نہ ہو۔ واللہ العالم ۔ الا لعنۃ اللہ علی القوم الظالمین۔
پچھلا صفحہ
1
2
3
4
5
6
7
8
اگلا صفحہ